کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے
Appearance
کچھ اور دل لگی نہیں اس بد نصیب سے
ہم جانتے ہیں کھیلتے ہو تم رقیب سے
میں بد گمانیوں کا بھی ممنون ہو گیا
وہ حال پوچھ لیتے ہیں میرا طبیب سے
دشمن بنائے ہیں مری قسمت نے سینکڑوں
چاہا ہے تجھ کو خلق نے میرے نصیب سے
اے ناصح شفیق رہے کچھ تو چھیڑ چھاڑ
ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے
مانند برق مثل ہوا صورت نگاہ
اکثر نکل گئے ہیں وہ میرے قریب سے
پوچھو جناب داغؔ کی ہم سے شرارتیں
کیا سر جھکائے بیٹھے ہیں حضرت غریب سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |