کچھ طور نہیں بچنے کا زنہار ہمارا
Appearance
کچھ طور نہیں بچنے کا زنہار ہمارا
جی لے ہی کے جاوے گا یہ آزار ہمارا
کوچہ سے ترے کوچ ہے اے یار ہمارا
جی لے ہی چلی حسرت دیدار ہمارا
تو ہم کو اٹھا لیجیو اس وقت الٰہی
جس وقت اٹھے پہلو سے دل دار ہمارا
یارا ہے کہاں اتنا کہ اس یار کو یارو
میں یہ کہوں اے یار ہے تو یار ہمارا
ہم پادشہ مملکت عشق ہیں ناحق
منصور سا مارا گیا سردار ہمارا
کہہ دیجیو مکھولی کو اے گردش طالع
ہاں جلدی سے لا تخت ہوا دار ہمارا
ابرو کی تری بیت کی کیا بات ولیکن
ہے آہ کا مصرعہ بھی دھواں دار ہمارا
احساںؔ تو غزل فارسی ہی اپنی کہا کر
دل ریختہ تیرے سے ہے بیزار ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |