کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
Appearance
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
مجھ سے انکار رہا غیر سے اقرار رہا
کچھ سروکار نہیں جان رہے یا نہ رہے
نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا
شب خلوت وہی حجت وہی تکرار رہی
وہی قصہ وہی غصہ وہی انکار رہا
طالب دید کو ظالم نے یہ لکھا خط میں
اب قیامت پہ مرا وعدۂ دیدار رہا
حال دل بزم میں اس شوخ سے ہم کہہ نہ سکے
لب خاموش کی صورت لب اظہار رہا
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
اک نظر نزع میں دیکھی تھی کسی کی صورت
مدتوں قبر میں بے چین دل زار رہا
دل ہمارا تھا ہمارا تھا ہمارا لیکن
ان کے قابو میں رہا ان کا طرفدار رہا
عمر ہنس کھیل کے اس طرح گزاری اے ہجرؔ
دوست کا دوست رہا یار کا میں یار رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |