کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے
کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے
لیتے ہیں دل کا کام ہم اپنی زبان سے
کیا لذت وصال ادا ہو بیان سے
سب حرف چپکے جاتے ہیں میری زبان سے
مشہور راز عشق ہے کس کے بیان سے
میری زبان سے کہ تمہاری زبان سے
فتنہ بنا زمین پہ ہر ذرہ خاک کا
نکلے ہیں بہر سیر وہ جس دم مکان سے
اس دن سے مجھ کو نیند نہ آئی تمام عمر
اک شب ملی تھی آنکھ ترے پاسبان سے
یہ خاک میں ملائے تو وہ ہو ستم شریک
مجھ کو زمیں سے لاگ انہیں آسمان سے
لینا سنبھالنا کہ مرے ہوش اڑ چلے
آتا ہے کوئی مست قیامت کی شان سے
مجھ سے نظر ملا کے تم ابرو میں بل نہ دو
سیدھا چلے گا تیر نہ ٹیڑھی کمان سے
بازار عشق میں ہیں بہت دل جگہ جگہ
دیکھیں وہ مول لیتے ہیں کس کی دکان سے
شوریدہ سر وہ ہوں کہ اسے سر سے توڑ دوں
گر سنگ حادثہ بھی گرے آسمان سے
ارزاں کرے فروخت اگر مے فروش عشق
لینے لگیں فرشتے بھی اس کی دکان سے
گزری ہے آزمائش مہر و وفا میں عمر
فرصت مجھے ملی نہ کبھی امتحان سے
دل بھی بچا جگر بھی بچا خیر ہو گئی
تیر نگاہ پار ہوا درمیان سے
میں تم کو ناگوار ہوں دل مجھ کو ناگوار
تم مجھ سے تنگ اور ہوں میں تنگ جان سے
ہاں ہاں ترا رقیب سے بے شک ہے ربط ضبط
رتبہ یقین کا ہے زیادہ گمان سے
مہر و وفا کا نام ہے اب بات بات پر
یہ سن لیا ہے آپ نے کس کی زبان سے
کیسا کھلا ہے پھول جب آیا بہار پر
پوچھے تو کوئی لطف جوانی جوان سے
دانستہ آتے جاتوں سے لڑتا ہے رات دن
پھر ہو پڑی تھی آج ترے پاسبان سے
اس خوبرو کو بزم حسیناں میں دیکھیے
کرتا ہے آن بان بڑی آن تان سے
اے داغؔ اس کی خیر مناتا ہے آدمی
کوئی عزیز بڑھ کے نہیں اپنی جان سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |