کھلے گا ناخن شمشیر سے عقدہ مرے دل کا
کھلے گا ناخن شمشیر سے عقدہ مرے دل کا
کسی قاتل سے ہے آسان ہونا میری مشکل کا
پس مردن بھی یہ منظور ہے نظارہ قاتل کا
چراغ گور میں عالم ہوا ہے چشم بسمل کا
غبار دہر سے اک لحظہ بھی خالی نہیں ہوتا
الٰہی شیشۂ ساعت ہے کیا شیشہ مرے دل کا
یہی گر زندگی بھر طبع عالی کا رہا عالم
بنے گا مر گئے پر آسماں دسواں مرے گل کا
نہ توڑے رشتۂ دام اور اپنا یار دم توڑے
ہے بہتر اس بھڑکنے سے تڑپنا طائر دل کا
جہاں میں کاملوں کو قدر ہے ہم خاکساروں کی
شکست دل گدا کو ٹوٹنا ہے ساغر گل کا
عجب ہے روئے جاناں پر نہ ہونا ایک بھی تل کا
عدم کرتا نہیں تاروں کو جلوہ ماہ کامل کا
قیامت لائے گا گلزار میں نالہ عنادل کا
جگانا فتنۂ خوابیدہ ہے صیاد غافل کا
میں مجنوں دیکھتے ہی مر گیا اس رشک لیلیٰ کو
کفن کے واسطے گویا پھٹا تھا پردہ محمل کا
کیا لبریز مروارید چشم گوہر افشاں سے
گماں گزرا جو دریا پر مجھے دامان ساحل کا
مرا خواب العزیز و غیرت خواب زلیخا ہے
تصور رات بھر تھا مجھ کو اک یوسف شمائل کا
میں ایسا ناتواں ہوں سر اٹھانا مجھ کو مشکل ہو
برائے طوق گردن چاہیئے چھلا انامل کا
کفن مثل کتاں ہے ٹکڑے ٹکڑے عرشؔ مدفن میں
تصور مر گئے پر بھی ہے یہ اس ماہ کامل کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |