کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
Appearance
کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
میں رہروان عدم کو بہت پکار رہا
قفس سے چھوڑے ہے اب مجھ کو کیا تو اے صیاد
چمن کے بیچ کہاں موسم بہار رہا
پس از وفات بھی اپنی ہوئیں نہ آنکھیں بند
زبس کہ تیرے ہی آنے کا انتظار رہا
خدا کے واسطے اب اس سے ہاتھ اٹھا کہ مرے
جگر میں نم نہیں اے چشم اشکبار رہا
ہوا تو غیر سے جب ہمکنار میرے ساتھ
کہاں وہ وعدہ رہا اور کہاں قرار رہا
کروں جو چاک گریباں کو اپنے ہوں مجبور
کہ میرے ہاتھ میں میرا نہ اختیار رہا
نہ سیر لالہ و گل ہم کو کچھ نظر آئی
کہ نوک ہر مژہ پر یاں دل فگار رہا
گلی میں اس کی گئے اور وہاں سے پھر آئے
تمام عمر یہی اپنا کاروبار رہا
غزل اک اور بھی اے مصحفیؔ سنا دے تو
کوئی کہے نہ کہ بندہ امیدوار رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |