کھینچ کر یوں لے چلی وحشت بیاباں کی طرف
کھینچ کر یوں لے چلی وحشت بیاباں کی طرف
لائیں جیسے طفل بد خو کو دبستاں کی طرف
فیض وحشت کا ادائے شکر جب واجب ہوا
سر جھکایا ہم نے محراب گریباں کی طرف
حاصل جوش جنوں ہے ماتم ہوش و خرد
خاک اڑاتے جاتے ہیں وحشی بیاباں کی طرف
عقل کے تیغ جنون تیز سے کوچے کٹے
کون آئے جادۂ چاک گریباں کی طرف
کر چکا جوش جنوں جنس خرد پر ہاتھ صاف
لوٹ اب آتی ہے بازار گریباں کی طرف
عشق کے مکتب میں جب آیا پئے درس جنوں
پہلے ہی انگلی اٹھی نون گریباں کی طرف
مائل زیور ہوا جب وہ حسین جامہ زیب
چاند آیا چرخ سے طوق گریباں کی طرف
ہوش میں آتے ہیں دیوانے گئی فصل بہار
دشت وحشت چھپ رہے پشت گریباں کی طرف
ناخن غم کا نشاں دل پر ہے مثل ماہ نو
انگلیاں اٹھتی ہیں اس زخم نمایاں کی طرف
جب کسی عاشق نے کچھ حال پریشانی کہا
ہنس دئے منہ پھیر کر زلف پریشاں کی طرف
ضعف میں جی کھول کر رونے کی حسرت ہے مجھے
دیکھتا ہے یاس سے ہر اشک داماں کی طرف
شمع کے شعلے ستم کرتے ہیں مثل برق طور
دیکھتا ہوں جب نظرؔ بزم حسیناں کی طرف
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |