کہتا ہوں تو تہمت حسد ہوتی ہے
Appearance
کہتا ہوں تو تہمت حسد ہوتی ہے
خاموشی میں دل کو سخت کد ہوتی ہے
دنیا طلبی ضرور ہے انساں کو
لیکن ہر شے کی ایک حد ہوتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |