کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
Appearance
کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
ستم ایجاد ہو پھر کیوں ستم ایجاد نہ ہو
نہیں پیمان وفا تم نے نہیں باندھا تھا
وہ فسانہ ہی غلط ہے جو تمہیں یاد نہ ہو
تم نے دل کو مرے کچھ ایسا کیا ہے ناشاد
شاد کرنا بھی جو اب چاہو تو یہ شاد نہ ہو
جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد
جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو
میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے
ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو
میں نہ بھولوں غم عشق کا احساں وحشتؔ
ان کو پیمان محبت جو نہیں یاد نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |