کہتے ہیں جس کو نظیرؔ سنیے ٹک اس کا بیاں
کہتے ہیں جس کو نظیرؔ سنیے ٹک اس کا بیاں
تھا وہ معلم غریب بزدل و ترسندہ جاں
کوئی کتاب اس کے تئیں صاف نہ تھی درس کی
آئے تو معنی کہے ورنہ پڑھائی رواں
فہم نہ تھا علم سے کچھ عربی کے اسے
فارسی میں ہاں مگر سمجھے تھا کچھ این و آں
لکھنے کی یہ طرز تھی کچھ جو لکھے تھا کبھی
پختگی و خامی کے اس کا تھا خط درمیاں
شعر و غزل کے سوا شوق نہ تھا کچھ اسے
اپنے اسی شغل میں رہتا تھا خوش ہر زماں
سست روش پست قد سانولا ہندی نژاد
تن بھی کچھ ایسا ہی تھا قد کے موافق عیاں
ماتھے پہ اک خال تھا چھوٹا سا مسے کے طور
تھا وہ پڑا آن کر ابرووں کے درمیاں
وضع سبک اس کی تھی تس پہ نہ رکھتا تھا ریش
موچھیں تھیں اور کانوں پر پٹے بھی تھے پنبہ ساں
پیری میں جیسی کہ تھی اس کو دل افسردگی
ویسی ہی رہی تھی ان دنوں جن دنوں میں تھا جواں
جتنے غرض کام ہیں اور پڑھانے سوا
چاہئے کچھ اس سے ہوں اتنی لیاقت کہاں
فضل نے اللہ کے اس کو دیا عمر بھر
عزت و حرمت کے ساتھ پارچہ و آب و ناں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |