کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
تم سے کس روز ربط تھا میرا
نامہ بر اس نے تو کہا سب کچھ
تو نے بھی حال کچھ کہا میرا
اب تو خواہاں وصال کا بھی نہیں
کچھ عجب ہے معاملہ میرا
اور کس کو سناتے ہو مجھ کو
اور کس کا یہ ذکر تھا میرا
یہ بھی کیا بات آئی اس دن کی
یہ بھی کہیے قصور تھا میرا
مجھ سے پھر پوچھنے سے کیا حاصل
گر سمجھتے ہو مدعا میرا
کچھ کسی بات کا خیال بھی ہے
غیر کے سامنے گلا میرا
دیکھ کر اس کا پھیرا لینا منہ
اور حسرت سے دیکھنا میرا
کچھ تو باعث ہے میرے آنے کا
کچھ تو تم سے ہے واسطا میرا
بے وفا کہتے ہیں سبھی تم کو
کہیے اس میں قصور کیا میرا
ایسی باتیں تو غیر کی ہوں گی
آپ نے نام لے لیا میرا
حال سن کے مرا نہ یہ تو کہہ
ایک ہی حال ہے ترا میرا
بے قراری سے شب کٹی ہوگی
ایسا کس دن خیال تھا میرا
کس نے بے تاب کر دیا مجھ کو
کون آرام لے گیا میرا
دم مرگ آ کے پوچھتے ہیں نظامؔ
اب تو بخشا کہا سنا میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |