کہنے سننے سے مری ان کی عداوت ہو گئی
Appearance
کہنے سننے سے مری ان کی عداوت ہو گئی
جو نہ ہونی تھی وہ غیروں کی بدولت ہو گئی
روز آتی ہے مگر اک روز بھی آتی نہیں
اے اجل تو بھی مرے حق میں قیامت ہو گئی
میرے ان کے اب کہاں پہلا تپاک عاشقی
چلتے پھرتے مل گئے صاحب سلامت ہو گئی
سمجھے تھے دشت جنوں میں کچھ بہل جائے گا دل
دیکھ کر سنسان جنگل دونی وحشت ہو گئی
شکل دکھلاتی نہیں شیشہ سے آ کے جام میں
دختر رز تو تو ابھی سے بے مروت ہو گئی
مرگ عاشق کا عبث ہے سوگ ہر دم اس قدر
چھٹ گیا وہ قید غم سے تم کو فرصت ہو گئی
فصل گل آئی بڑھے جوش جنوں کے ولولے
پھر وحی تسلیمؔ اپنی غیر حالت ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |