Jump to content

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں

From Wikisource
کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
by میر حسن دہلوی
316570کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریںمیر حسن دہلوی

کہیں جو دل نہ لگاویں تو پھر اداس پھریں
وگر لگاویں تو مشکل کہ بے حواس پھریں

ہمیں بھی ہووے اجازت کہ شمع رو تجھ پر
پتنگ کی نمط اک دم تو آس پاس پھریں

تری گلی میں بھلا اتنی تو ہمیں ہو راہ
کہ جب تک اپنا وہاں جی ہو بے ہراس پھریں

اٹھا دے ہم سے جو بیٹھے ہوؤں کو اب کی فلک
تو آرزو ہے یہ جی میں کہ بے قیاس پھریں

نہ خط کسی کا پڑھے ہے حسنؔ نہ وہ عرضی
کہاں تلک لئے ہم اپنا التماس پھریں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.