کہیے گر ربط مدعی سے ہے
Appearance
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے
دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو
دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے
اس کی الفت میں جیتے جی مرنا
فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے
ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے
خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے
دل میں اک آرزو کبھی سے ہے
مجھ سے پوچھو ہو کس سے الفت ہے
تم سمجھتے نہیں کسی سے ہے
رنجش غیر سے نہیں مطلب
کام ہم کو تری خوشی سے ہے
اس قدر آپ ہم پہ ظلم کریں
اس کا انصاف آپ ہی سے ہے
رشک دشمن نہ سہہ سکے گا نظامؔ
یہ بھی ناچار اپنے جی سے ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |