کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
Appearance
کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
کہتے ہیں جسے مصر وہ بازار ہے تیرا
تقدیر اسی کی ہے نصیبہ ہے اسی کا
جس آنکھ سے کچھ وعدۂ دیدار ہے تیرا
تا زیست نہ ٹوٹے وہ مرا عہد وفا ہے
تا حشر نہ پورا ہو وہ اقرار ہے تیرا
برچھی کی طرح دل میں کھٹکتی ہیں ادائیں
انداز جو قاتل دم رفتار ہے تیرا
کیا تو نے کھلائے چمن بزم میں کیفیؔ
کیا رنگ گل افشائی گفتار ہے تیرا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |