کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
Appearance
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا
موت کا نام پیار کا ہے عشق
اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
عشق کے درد کی دوا ہے عشق
کیا ڈبایا محیط میں غم کے
ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق
عشق سے جا نہیں کوئی خالی
دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق
کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
عشق ہے عشق کرنے والوں کو
کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر
عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |