کیا خاک کہوں مطلب دل دار کے آگے
Appearance
کیا خاک کہوں مطلب دل دار کے آگے
سو اور سنائے گا وہ اغیار کے آگے
بولا تھا جو آغاز محبت میں بڑا بول
آیا وہی آخر دل بیمار کے آگے
روکا ہی کیا ضبط محبت سر محفل
سر جھک ہی گیا اس بت عیار کے آگے
پیدا نہیں دنیا میں دوائے مرض عشق
کیا لوگ نہ ہوتے تھے اس آزار کے آگے
فریادئ بیداد جفا جان کے مجھ کو
محشر میں وہ چلتے ہوئے للکار کے آگے
مرتا ہے کسی اور پہ اب غیر سنا ہے
بولوں گا کبھی جھوٹ نہ سرکار کے آگے
آ جائے نسیمؔ اس کو ترحم تو عجب کیا
چل لے تو چلیں تجھ کو ترے یار کے آگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |