کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
ممکن ہے کہ اس درد کی دنیا میں دوا ہو
بالوں کا گھرس رکھنا ہے پگڑی ہی میں بہتر
کیا فائدہ اک خلق گرفتار بلا ہو
مغرور نہ رہ ہستئ موہوم پہ غافل
یاں آنکھ جھپکتے ہی خدا جانیے کیا ہو
اے مشت غبار تن فرسودۂ عاشق
اس کو میں زمیں گیر ہے گیو اب تو ہوا ہو
گر چرخ پہ جاوے تو شفق ہووے مرا خوں
ور خاک میں پنہاں ہو تو واں رنگ حنا ہو
ہے صبح سے کچھ آج مرے دل کو بشاشت
اس کوچے سے قاصد تو نہ خط لے کے چلا ہو
کیا دور ہے گر روح مری بعد فنا بھی
پھرتی رہے کوچے میں ترے باد صبا ہو
پردہ میں اٹھاتا نہیں زنہار کسی کا
اس ڈر سے کہیں تو ہی نہ پردے میں چھپا ہو
ہے آئینے میں عکس ترا تیری ہی صورت
تو اس پہ فدا اور وہ تیرے پہ فدا ہو
چلتے ہی ترے بام پہ آیا ہے وہ کافر
کیوں اتنے قدم جلد اٹھاتا ہے کھڑا ہو
اے مصحفیؔ اس کوچے سے تو سر کو جھکائے
کیا جاوے ہے کم بخت ذرا رو بہ قفا ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |