کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
Appearance
کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا
لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے
آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا
گور سے نالے نہیں اٹھتے تو نے اگتی ہے
جی گیا پر نہ ہمارا سر پر شور گیا
چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا
ناتواں ہم ہیں کہ ہیں خاک گلی کی اس کی
اب تو بے طاقتی سے دل کا بھی مقدور گیا
لے کہیں منہ پہ نقاب اپنے کہ اے غیرت صبح
شمع کے چہرۂ رخشاں سے تو اب نور گیا
نالۂ میرؔ نہیں رات سے سنتے ہم لوگ
کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |