Jump to content

کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا

From Wikisource
کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
by میر تقی میر
313518کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینامیر تقی میر

کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
ناموس کو نے گھر ہے نہ در ہائے حسینا
اعوان ترے جو تھے انھیں کھا گئی تلوار
انصار ترے سب گئے مر ہائے حسینا
واماندہ ترے کہتے ہیں سر دیکھ کے تیرا
ہم کیونکے کریں عمر بسر ہائے حسینا
مدت تئیں کر یاد زمانے کو ترے ہم
روتے رہیں گے آٹھ پہر ہائے حسینا
ہم شام کو قیدی ہوچلے دیکھیے بارے
ہوتی ہے یہ شب کیونکے سحر ہائے حسینا
تجھ بن کمریں ٹوٹی ہی جاتی ہیں اگرچند
ہم باندھتے ہیں کس کے کمر ہائے حسینا
دل سوختگی اپنی کی کیا شرح کریں ہائے
آنسو تو ہوئے جیسے شرر ہائے حسینا
جوں نقش قدم خاک میں ہم ملتے ہیں تجھ بن
پیدا نہیں کچھ تیرا اثر ہائے حسینا
منظور نجابت نہ شرافت نہ سیادت
اب عیب ہوئے سارے ہنر ہائے حسینا
وارث نہیں جو پانی دے تم پیاسے موؤں کو
باقی ہے سو بیمار پسر ہائے حسینا
تیرا ہی جگر تھا کہ ستم تونے یہ دیکھے
سب ٹکڑے ہوئے تیرے جگر ہائے حسینا
اس دشت میں یہ منفعت آکر کے اٹھائی
تو کھینچ گیا جی کا ضرر ہائے حسینا
جز جور و ستم کچھ نہیں دیتا ہے دکھائی
جاتی ہے جدھر اپنی نظر ہائے حسینا
کیا خانہ خرابی کا بیاں کرتے ترے ساتھ
اٹھتے ہی ترے لٹ گیا گھر ہائے حسینا
لالا کے بٹھاتے ہیں ہمیں راہگذر میں
تو جی سے گیا ہے جو گذر ہائے حسینا
اکبر کو کہ اصغر کو کہ قاسم کو کڑھیں ہم
کیا خاک برابر ہیں گہر ہائے حسینا
ایسا تو گیا اٹھ کے کہاں گھر سے کہ ہم تک
پھر آئی نہ کچھ خیرخبر ہائے حسینا
نے سایہ جہاں بیٹھیے نے سر پہ ہے چادر
ہے حال نہایت ہی بتر ہائے حسینا
ہم دست تلطف کے ترے اٹھتے ہی سارے
ہر خس کے ہوئے دست نگر ہائے حسینا
اس قوم سیہ رو نے زیادہ دہنی سے
کچھ کسر میں چھوڑی نہ کسر ہائے حسینا
کیا اکبر و قاسم ہیں سبھی حلق بریدہ
یہ پودے عجب لائے ثمر ہائے حسینا
بے خوف و خطر لوٹتے ہیں گھر کو مخالف
تو ہو تو ترا ہووے بھی ڈر ہائے حسینا
ہر سمت کو سر مارتے جنگل میں پھریں ہیں
اب جا کے تجھے ڈھونڈیں کدھر ہائے حسینا
ٹھہرے ہے کوئی جن و ملک تیری جگہ پر
یہ صبر نہ تھا حد بشر ہائے حسینا
لب خشک عزیز اپنے جو سب مارے پڑے ہیں
ہر لحظہ مژہ ہوتی ہے تر ہائے حسینا
کیا کیا نہ اذیت ہمیں دیتے ہیں گزندے
حیدر نہیں جس کا ہو خطر ہائے حسینا
انواع ستم دیکھتے ہیں تیرے موئے پر
کھول آنکھ ٹک انصاف تو کر ہائے حسینا
آگے بھی کہیں میرؔ جو کچھ بات رہی ہو
ہے لب پہ یہی شام و سحر ہائے حسینا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.