کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
Appearance
کیا کہوں حسرت دیدار نے کیا کیا کھینچا
کبھی دامن ترا کھینچا کبھی پردا کھینچا
نقش امید مرے شوق نے الٹا کھینچا
مجھ سے کھنچتے ہی گئے وہ انہیں جتنا کھینچا
وہ ترے دل میں ہماری بھی جگہ کر دے گا
جس نے اس آنکھ کے تل میں ترا نقشا کھینچا
خواب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا
تان لیں دونوں بھویں ڈال کے نظریں اس نے
تیر چھوڑے تو کمانوں نے بھی چلا کھینچا
ضبط فریاد سے مضطرؔ مری سانسیں الجھیں
رسم فریاد نے اوپر کو کلیجا کھینچا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |