Jump to content

کیا گردوں نے فتنے کو اشارہ

From Wikisource
کیا گردوں نے فتنے کو اشارہ
by میر تقی میر
313537کیا گردوں نے فتنے کو اشارہمیر تقی میر

کیا گردوں نے فتنے کو اشارہ
بلا کو کربلا میں لا اتارا
ہوا آخر طلب سید ہمارا
لٹا ناموس پیغمبرؐ کا سارا

مروت شامیوں سے بن نہ آئی
ہوئی یہ چشم و روے بے وفائی
ستم کی تیغ سب نے آزمائی
حسین ابن علی کو جس سے مارا

رہا جو عابدیں سو زار و بیمار
اٹھانا یک قدم کا جس پہ دشوار
بلا کا مبتلا غم کا گرفتار
غریب و بیکس و بے یار و یارا

خطاب اس کا تھا ہر دم آسماں کو
کہ ہم بے طالعوں غم دیدگاں کو
دکھایا تونے تیرہ کر جہاں کو
مگر رکھتے نہ تھے ہم سب ستارہ

فلک تونے عجب چوپڑ بچھائی
سمجھ میں چال تیری کچھ نہ آئی
امام دیں نے جاں بازی لگائی
موا لیکن نہ اپنے جی کو ہارا

چلا وہ قافلہ لوٹا ہوا سب
انھوں کا پیش رو عابد جسے تب
کوئی روتا کسو کے نالہ بر لب
کسو کی زندگانی ناگوارا

پڑی راہ اس طرف اس کارواں کی
جہاں لاشیں پڑی تھیں کشتگاں کی
ہر اک نے خونچکاں لب سے فغاں کی
ہوا آشوب محشر آشکارا

کوئی رو رو کے زہرا کو پکاری
کہ دیکھو خوار ہے اولاد ساری
نہیں لیتیں خبر جو تم ہماری
ہوا شاید جگر پتھر تمھارا

کیا ہے چرخ نے ناشاد ہم کو
دیا ہے اس طرح برباد ہم کو
نہیں کرتیں جو مطلق یاد ہم کو
مگر تم نے ہمیں دل سے بسارا

ضرورت ہے کہ ہو ٹک تم بھی آگہ
مصیبت پڑ گئی ہے ہم پہ ناگہ
ہمارا حال ہے رونے کی جاگہ
کرے امت کھڑی ہوکر نظارہ

جگر ہم سب کے اس غم سے پھٹے ہیں
شجر اس باغ کے سارے کٹے ہیں
گل و بوٹے بھی ماٹی میں اٹے ہیں
جفا کا ہر طرف چلتا ہے آرا

نہیں بھائی بھتیجوں کا ٹھکانا
میسر سب کو آیا جی سے جانا
کسو کا تن ہے تیروں کا نشانہ
کسو کا سر ہوا ہے چارپارہ

جہاں ہم کو اسیروں کا کوا ہے
ہمارا تشنہ لب صاحب موا ہے
ستم آگے کہیں ایسا ہوا ہے
ٹک اک انصاف سے دیکھو خدارا

فرات اوپر کسو کا تھا کنایہ
کہ اے بے تہ نہ تھا کیا اتنا پایہ
حسین ابن علی پیاسا کھپایا
گیا تو بیچ میں سے کر کنارہ

کوئی رو رو کے کہتی تھی زمیں سے
کہ تجھ کو بھی کدورت تھی ہمیں سے
اگر تو چاک ہو جاتی یہیں سے
نہ ہوسکتا ترے اوپر گذارا

حسین آکر نہ اس جا خیمہ کرتا
نہ اس کا دار و دستہ کٹ کے مرتا
نہ سر اس کا کوئی نیزے پہ دھرتا
نہ ہوتی خاک میداں خوں سے گارا

نہ پھرتا اس طرح ہم سے زمانہ
نہ ہوتے شام کو ہم یوں روانہ
نہ لگتا عابدیں کو تازیانہ
نہ ہوتی حشر دنیا میں دوبارہ

کوئی بے تاب تھی اور کوئی مضطر
نہ تھی اک پردگی کے سر پہ معجر
ہوا روے سخن سوے پیمبرؐ
کہ زین العابدیں رو کر پکارا

گلے میں طوق کرتا ہے گرانی
ہوئی ہے سخت مشکل زندگانی
کہوں کس سے غم و درد نہانی
نہیں اس درد کا مجھ پاس چارہ

رہے ہیں ہم جو پیچھے کشمکش ہے
تنوں کو رنج ہے جانوں کو غش ہے
موا قرباں ہو جو اس پر وہ خوش ہے
نہ تھا جینے میں ایسے اس کا وارا

نہیں جلتا ہے ہم پر دل کسی کا
نہیں رکھتے ہیں پاس اب تجھ نبیؐ کا
رہا تھا رو کچھ اک ابن علی کا
سو اپنے ساتھ سر کے لے سدھارا

وہ سید کشتۂ شمشیر نامرد
پڑا ہے خاک میں جس پر منوں گرد
علی کا نورعین و نازپرورد
تمھاری آنکھوں کی پتلی کا تارا

نہیں فرصت کہ سونپوں خاک کے تیں
تسلی دوں دل غمناک کے تیں
مگر سونپوں خداے پاک کے تیں
کہ وارث کون ہے اس بن ہمارا

گیا وہ قافلہ آخر سوے شام
دلوں پر داغ و ناامید و ناکام
ولیکن عابد بیمار ہر گام
جگر کرتا تھا مثل سنگ خارا

بھلی غم سے نہیں ہے گرم جوشی
کروں میرؔ اختیار اب میں خموشی
کہوں کیا شامیوں کی چشم پوشی
دعا گفتند آں مردم حیا را


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.