کیا یاد کر کے روؤں کہ کیسا شباب تھا
Appearance
کیا یاد کر کے روؤں کہ کیسا شباب تھا
کچھ بھی نہ تھا ہوا تھی کہانی تھی خواب تھا
اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے جو پسینہ گلاب تھا
محمل نشیں جب آپ تھے لیلیٰ کے بھیس میں
مجنوں کے بھیس میں کوئی خانہ خراب تھا
تیرا قصوروار خدا کا گناہ گار
جو کچھ کہ تھا یہی دل خانہ خراب تھا
ذرہ سمجھ کے یوں نہ ملا مجھ کو خاک میں
اے آسمان میں بھی کبھی آفتاب تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |