کیا یہی ہے جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
Appearance
کیا یہی ہے جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے
یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوۂ شیوا بیانی اور ہے
چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے
دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریک نہانی اور ہے
غیر سمجھا ہے کسے اے ہم نشیں
میرے دل میں بد گمانی اور ہے
تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |