کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
Appearance
کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
اس لیے پھر آئے کعبے سے کہ مے خانہ نہ تھا
تم نے دیکھی ہی نہیں تقدیر کی تاریکیاں
اک اندھیری گور تھی فرقت میں کاشانہ نہ تھا
مجمع بیت الحرم کی دھوم سنتے تھے مگر
جا کے جب دیکھا تو ان میں کوئی فرزانہ نہ تھا
حشر میں اس شوخ کا طرز تغافل دیکھنا
مجھ کو پہچانا نہیں حالانکہ بیگانہ نہ تھا
حشر میں آخر اسے بھی چھوڑتے ہی بن پڑی
خانۂ مدفن بھی گویا اپنا کاشانہ نہ تھا
ایسی کیا بیتی کہ مضطرؔ ان بتوں پر مر مٹا
جان دے دیتا وہ کچھ ایسا تو دیوانہ نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |