کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
Appearance
کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں رنگ محفل ہو گیا
انتظار اس گل کا اس درجہ کیا گل زار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دست قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیٰ محمل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمند زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |