کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
Appearance
کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
دل تو کہے ہے ساتھ ہی دل بر کے سوئیے
گھبرا کے اس کا کہنا وہ ہائے شب وصال
بس بس ذرا اب آپ تو ہٹ کر کے سوئیے
میں آپ سے خفا ہوں کہ تم روٹھے ہو پڑے
بہتان میرے سر پہ نہ یوں دھر کے سوئیے
سوتے میں بھی جو دیکھیے تو چونک ہی اٹھے
کس طرح ساتھ ایسے ستم گر کے سوئیے
تم لطف نشہ دیکھو ذرا تم کو دیکھیں ہم
کیا لطف ہے کہ لیتے ہی ساغر کے سوئیے
مشہور ہے کہ سولی پہ بھی نیند آتی ہے
یارب شب فراق میں کیوں کر کے سوئیے
تکیہ تو آپ سر کے تلے روز رکھتے ہیں
اب ہاتھ میرے رکھ کے تلے سر کے سوئیے
وہ مسکرا رہے ہو لو وہ آنکھ کھل گئی
یوں کون مانتا ہے کہ جگ کر کے سوئیے
پاس عدو تو دیکھو ہمیں حکم ہے نظامؔ
شب کو کہیں نہ پاس مرے گھر کے سوئیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |