کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
Appearance
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
منظور تو ہے میری ملاقات سے توبہ
زاہد نے چھپایا ہے اسے گوشۂ دل میں
بھاگی تھی کسی رند خرابات سے توبہ
یہ فصل اگر ہوگی تو ہر روز پئیں گے
ہم مے سے کریں توبہ کہ برسات سے توبہ
دنیا کی کوئی بات ہی اچھی نہیں زاہد
اس بات سے توبہ کبھی اس بات سے توبہ
مسجد نہیں دربار ہے یہ پیر مغاں کا
دروازے کے باہر رہے اوقات سے توبہ
یہ داغؔ قدح خوار کے کیا جی میں ہے آئی
سنتے ہیں کئے بیٹھے ہیں وو رات سے توبہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |