کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
Appearance
کیوں کر بھلا لگے نہ وہ دل دار دور سے
دونی بہار دیوے ہے گلزار دور سے
نزدیک ہی سے شرم ہے اتنا تو ہو بھلا
دیکھا کریں کبھی کبھی دیدار دور سے
جی تو بھرا نہ اپنا کسی طرح کیا ہوا
دیکھا اگر اسے سر بازار دور سے
بے اختیار اٹھتی ہے بنیاد بے خودی
آتی ہے جب نظر تری دیوار دور سے
نزدیک ٹک بٹھا کے حسنؔ کا تو حال دیکھ
آیا ہے قصد کر کے یہ بیمار دور سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |