گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں
Appearance
گرمی مرے کیوں نہ ہو سخن میں
اک آگ سی پھنک رہی ہے تن میں
وہ رشک گل آئے گر پس از مرگ
پھولا نہ سماؤں میں کفن میں
ہشیاری میں کب ہے ایسی لذت
جو کچھ ہے مزا دوانہ پن میں
خواری کا مری وہ لطف سمجھے
کامل ہو جو عاشقی کے فن میں
گردش جنہیں مثل آسیا ہے
دائم انہیں ہے سفر وطن میں
ناصح میں رفو کو تب کہوں آہ
حالت ہو جو کچھ بھی پیرہن میں
اے باد خزاں وہ کیا ہوئے گل
خاک اڑنے لگی ہے کیوں چمن میں
بیتابیٔ دل کرے ہے رسوا
کیا جائیے اس کی انجمن میں
ہے ترا ہی دھیان اور کچھ اب
باقی نہیں تیرے خستہ تن میں
جلد اس کو دکھا دے شکل اے جاں
رہ جائے گی ورنہ من کی من میں
گھر میں جو نہیں وہ یار جرأتؔ
گھبرائے ہے اپنی جان تن میں
ہے جی میں کہ خانہ کر کے ویراں
جا بیٹھیے اک اجاڑ بن میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |