گرمی کی چھٹیاں
مشکل سے پھر اسکول نہ جانے کے دن آئے
بے فکری سے پھر وقت گنوانے کے دن آئے
پھر رات کو چھپ چھپ کے ڈرانے کے دن آئے
سہمے ہوئے لوگوں کو بنانے کے دن آئے
پھر بیٹھ کے طبلہ سا بجانے کے دن آئے
پھر لیٹ کے تنہائی میں گانے کے دن آئے
ہر صبح کو پھر باغ میں جانے کے دن آئے
تو کہہ کے وہ کوئل کو چڑھانے کے دن آئے
پھر عام کا اچار بنانے کے دن آئے
پھر چھپ کے کہیں کیریاں کھانے کے دن آئے
کر دی تھی کتابوں نے ہماری تو زباں بند
گھر بھر میں پھر اک شور مچانے کے دن آئے
وہ دن گئے خوش رہنے کو جب بھولے ہوئے تھے
ہنسنے کے دن آئے ہیں ہنسانے کے دن آئے
اب وقت کا رونا نہیں اب وقت بہت ہے
ہر کام میں پھر دیر لگانے کے دن آئے
گھر پر بھی تھے گھیرے ہوئے اسکول کے دھندے
آزادی سے اب موج اڑانے کے دن آئے
بہنوں کو ستایا کبھی بھائی کو چڑھایا
لڑنے کے دن آئے ہیں لڑانے کے دن آئے
پھر پھولوں سے لدنے لگا ہر بیلے کا پورا
پودوں میں سے پھر پھول چرانے کے دن آئے
کھولے گئے پھر گرد سے لپٹے ہوئے پردے
دوپہر کو پھر رات بنانے کے دن آئے
پھر لوٹیں گے ہم چاندنی راتوں کی بہاریں
پھر چھت پہ پلنگوں کے بچھانے کے دن آئے
کیوں اب بھی پسینے میں شرابور ہو افسرؔ
ندی پہ کہیں جا کے نہانے کے دن آئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |