گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
Appearance
گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے
کون ایسا ہے جو چھیڑے ہے تمہیں راہ کے بیچ
میں سمجھ لوں گا ٹک اس کو مجھے بتلا دیجے
دل و جان و خرد و دیں پہلے ہی دن دے بیٹھے
آج حیراں ہوں کہ آتا ہے اسے کیا دیجے
کیا ہوا حال بھلا دیکھ تو مجھ بے دل کا
نہ کبھی دلبری کیجے نہ دلاسہ دیجے
دعویٔ رستمی کرتے تو ہیں پر اک دم میں
چھین لوں تیغ و سپر ان کی جو فرما دیجے
گم ہوا ہے ابھی یاں گوہر دل اے خوباں
ہاتھ لگ جاوے تمہارے تو مجھے پا دیجے
بے وفا دشمن مہر آفت جاں سنگیں دل
حیف بیدارؔ کہ ایسے کو دل اپنا دیجے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |