Jump to content

گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش

From Wikisource
گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش
by منشی خیراتی لال شگفتہ
317114گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروشمنشی خیراتی لال شگفتہ

گر تعلی پر ہے وہم امتحان مے فروش
بے نشاں ہو کر نکالیں گے نشان مے فروش

سجدے کرتے ہیں خم مے کو وفور نشہ میں
صورت مینائے مے مداح شان مے فروش

جام و مینا و صراحی و سبو سے بے گماں
ساقیٔ مشفق پہ ہوتا ہے گمان مے فروش

بھٹیوں پر جا کے پوچھیں گے بہار آنے تو دو
عالم مستی میں مستوں سے بیان مے فروش

شیشہ و جام و صراحی و سبو کیا مال ہیں
بخش دیں گے جوش مستی میں دوکان مے فروش

میکدے میں دخت رز کو لا بٹھائیں گے ضرور
پہلوئے مینائے دل میں میہمان مے فروش

جام آنکھیں ہیں تو بادہ اشک ہے شیشہ ہے دل
دیکھ او مے نوش میں بھی ہوں لبان مے فروش

کس قدر چمکا ہوا ہے بادۂ گلگوں کا دور
ایک عالم آج کل ہے مہمان مے فروش

میں بھی ہوں اک ساقی مے نوش تیرے دور میں
کفش بردار شریک خادمان مے فروش

خم کے خم کر دوں تہی دم بھر میں وہ مے نوش ہوں
اے شگفتہؔ ہاتھ آئے گر دکان مے فروش


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.