گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
کہنے کا تمہارے مجھے شکوا نہیں ہوتا
گر کہیے کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا
کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا نہیں ہوتا
قاصد کے بھی گر آنے کی امید نہ ہوتی
اک دم بھی تو جینے کا بھروسا نہیں ہوتا
یوں ہی سہی ہم ہجر میں مر جاتے بلا سے
بس اور تو کچھ اس سے زیادہ نہیں ہوتا
کیوں کہتے ہو تم مجھ سے کہ آنا نہیں منظور
یہ کس لیے کہتے ہو کہ آنا نہیں ہوتا
گو غیر برائی سے کریں ذکر ہمارا
اتنا بھی تو واں ذکر ہمارا نہیں ہوتا
لب تک بھی کبھی حرف تمنا نہیں آیا
ایسا کوئی محروم تمنا نہیں ہوتا
بیماریٔ ہجراں سے تو مرنا ہی بھلا تھا
اچھا جو میں ہوتا تو کچھ اچھا نہیں ہوتا
گر غیر سے کچھ تم کو محبت نہیں ہوتی
تو ہم کو یہ رشک قلق افزا نہیں ہوتا
یہ سچ ہے کہ تم آؤ گے پر دل کو کروں کیا
کہنے کا یقیں آپ کے اصلا نہیں ہوتا
ہوتا ہے وہ سب کچھ جو سنا ہو کبھی تم نے
اک تیرے نہ ہونے سے یہاں کیا نہیں ہوتا
اب سمجھے کہ یوں ہم کو بلاتے نہ کبھی تم
گر آپ کی محفل کا یہ نقشا نہیں ہوتا
گو جھوٹ ہو دھوکا ہو تسلی تو ہے دل کو
ہوتا ہے قلق اور جو وعدہ نہیں ہوتا
مقبول تمنا تو نظامؔ اپنی کہاں ہو
مقبول وہاں عذر تمنا نہیں ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |