Jump to content

گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا

From Wikisource
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا
by شیخ قلندر بخش جرات
296736گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیاشیخ قلندر بخش جرات

گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا
کیا برا مان کے کہتا ہے بھلا تجھ کو کیا

سر اٹھانا تجھے بالیں سے جو دشوار ہے اب
کیوں دلا بیٹھے بٹھائے یہ ہوا تجھ کو کیا

پوچھوں رنجش کا سبب اس سے تو جھنجھلا کے کہے
گر خفا ہوں تو میں ہوں آپ کو، جا تجھ کو کیا

ہم اسیران قفس کیا کہیں خاموش ہیں کیوں
راہ لے اپنی چل اے باد صبا تجھ کو کیا

گر کیا اس سے جدا مجھ کو تو کہہ دے یہ فلک
میرے اور اس کے نہ ملنے سے ملا تجھ کو کیا

ہاتھ اٹھاتا نہیں گر عشق سے میں اے ناصح
تو نصیحت سے مری ہاتھ اٹھا تجھ کو کیا

گر کہو نام خدا لگتے ہو تم کیا ہی بھلے
تو یہ کہتا ہے بھلا ہوں تو بھلا، تجھ کو کیا

کیوں دلا بستر غم پر ہے تو خاموش پڑا
کچھ تو کہہ مجھ سے کسی نے یہ کہا تجھ کو کیا

اب وہ موقوف ہوا نامہ و پیغام بھی آہ
حرف غیروں کا اثر کر ہی گیا تجھ کو کیا

میرے ملنے سے کیا منع کسی نے جو تجھے
تو نے اس بات کو سن کر نہ کہا تجھ کو کیا

پیک اشک آنکھوں سے چل نکلے جو خط پڑھتے ہی
جرأتؔ اب کچھ تو بتا اس نے لکھا تجھ کو کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.