گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں
Appearance
گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں
خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں
تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی
لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھلا میں
رکھتا ہے کچھ ایسی وہ برہمن بچہ رفتار
بت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بہ خدا میں
یارو نہ بندھی اس سے کبھو شکل ملاقات
ملنے کو تو اس شوخ کے ترسا ہی کیا میں
جب میں گیا اس کے تو اسے گھر میں نہ پایا
آیا وہ اگر میرے تو در خود نہ رہا میں
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |