گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
Appearance
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
قید خانہ ہے عجب گنبد بے در اپنا
شکل رہنے کی ہے بستی میں یہ اس بن اپنی
جیسے جنگل میں بناتا ہے کوئی گھر اپنا
شب کی بے تابیاں کیا کہیے کہ دیکھا جو سحر
ٹکڑے ٹکڑے نظر آیا ہمیں بستر اپنا
ہم نشیں اس کو جو لانا ہے تو لا جلد کہ ہم
تھامے بیٹھے رہیں کب تک دل مضطر اپنا
وہ گئے دن کہ سدا مے کدۂ ہستی میں
بادۂ عیش سے لبریز تھا ساغر اپنا
تاب نظارہ تری لائے نہ خورشید ذرا
ہاتھ جب تک کہ نہ رکھ لے وہ جبیں پر اپنا
دیں گے سر عشق کے سودے میں اگرچہ ہم کو
اس میں نقصاں نظر آتا ہے سراسر اپنا
ہے زمیں خوب غزل در غزل اس کو کہیے
بس کہ معمول ہے جرأتؔ یہی اکثر اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |