Jump to content

گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا

From Wikisource
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
by شیخ قلندر بخش جرات
296732گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپناشیخ قلندر بخش جرات

گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیدھر اپنا
قید خانہ ہے عجب گنبد بے در اپنا

شکل رہنے کی ہے بستی میں یہ اس بن اپنی
جیسے جنگل میں بناتا ہے کوئی گھر اپنا

شب کی بے تابیاں کیا کہیے کہ دیکھا جو سحر
ٹکڑے ٹکڑے نظر آیا ہمیں بستر اپنا

ہم نشیں اس کو جو لانا ہے تو لا جلد کہ ہم
تھامے بیٹھے رہیں کب تک دل مضطر اپنا

وہ گئے دن کہ سدا مے کدۂ ہستی میں
بادۂ عیش سے لبریز تھا ساغر اپنا

تاب نظارہ تری لائے نہ خورشید ذرا
ہاتھ جب تک کہ نہ رکھ لے وہ جبیں پر اپنا

دیں گے سر عشق کے سودے میں اگرچہ ہم کو
اس میں نقصاں نظر آتا ہے سراسر اپنا

ہے زمیں خوب غزل در غزل اس کو کہیے
بس کہ معمول ہے جرأتؔ یہی اکثر اپنا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.