گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
Appearance
گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
کہ ہے یہ طول قصہ رات تھوڑی
جو مے زاہد نے مانگی مست بولے
بہت یا قبلۂ حاجات تھوڑی
کہاں غنچہ کہاں اس کا دہن تنگ
بڑھائی شاعروں نے بات تھوڑی
اٹھے کیا زانوے غم سے سر اپنا
بہت گزری رہی ہیہات تھوڑی
خیال ضبط گریہ ہے جو ہم کو
بہت امسال ہے برسات تھوڑی
پلائے لے کے نقد ہوش ساقی
تہی دستوں کی ہے اوقات تھوڑی
وہی ہے آسماں پر گنج انجم
ملی تھی جو تری خیرات تھوڑی
ترا اے دخت رز واصف ہے واعظ
پئے حرمت ہے اتنی بات تھوڑی
چلو منزل امیرؔ آنکھیں تو کھولو
نہایت رہ گئی ہے رات تھوڑی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |