گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک
Appearance
گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک
پر مرے یار کے چہرے کا سا ڈھنگ اور نمک
حسن اس شوخ کا ہے بس کہ ملیح اس کی نگاہ
دل پہ کرتے ہیں مرے کار خدنگ اور نمک
غنچۂ گل میں و بلبل میں ہوئی بے مزگی
دیکھ گلشن میں دہن یار کا تنگ اور نمک
درد ہجراں سے بتنگ آپی ہوں ناصح سے کہو
زخم پر میرے نہ چھڑکے یہ دبنگ اور نمک
سخن وعظ و نصیحت دل پر خوں کو حضورؔ
یوں ہے جیوں شیشۂ مے کے لئے سنگ اور نمک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |