گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
Appearance
گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
برقعے سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا
گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا
وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بیتاب ہوں سیماب سا
دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روز وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا
ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گزرے ہے قد جو ہوا محراب سا
تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھی کبھو
اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا
بہکے جو ہم مست آ گئے سو بار مسجد سے اٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا
رکھ ہاتھ دل پر میرؔ کے دریافت کر کیا حال ہے
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دنوں بیتاب سا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |