گماں مہر درخشاں کا ہوا ہے روئے روشن پر
Appearance
گماں مہر درخشاں کا ہوا ہے روئے روشن پر
تعجب ایک عالم کو ہے کیا کیا ان کے جوبن پر
پڑھی جب فاتحہ تو پڑھتے پڑھتے ہنس دیا گویا
گرائی آپ نے بجلی جب آئے میرے مدفن پر
ہمارا دل دکھانا کچھ ہنسی یا کھیل سمجھے ہو
سمجھ پکڑو جواں ہو اب نہ جاؤ تم لڑکپن پر
سخن کو آپ کے اے حضرت دل کس طرح مانوں
کسی کو اعتبار آتا نہیں ہے قول دشمن پر
ہماری آنکھ سے گرتے نہیں یہ اشک کے قطرے
نچھاور کرتے ہیں موتی تمہارے روئے روشن پر
نظر میں جیسے شیریںؔ کے تمہارا روئے روشن ہے
نہیں پڑتی ہے آنکھ اس کی گل شاداب گلشن پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |