گو بہ نام اک زبان رکھتی ہے شمع
Appearance
گو بہ نام اک زبان رکھتی ہے شمع
کب ترا سا بیان رکھتی ہے شمع
تیرے مکھڑے کا سا نمک معلوم
ایک پھیکی سی آن رکھتی ہے شمع
سرفروشی کے مخترع ہم ہیں
گو اب اونچی دکان رکھتی ہے شمع
داغ پر داغ اٹھائے دل کی طرح
کب یہ تاب و توان رکھتی ہے شمع
رووے گو تودہ تودہ کب ایسے
دیدۂ خوں فشان رکھتی ہے شمع
آہ اس داغ دل سے جس سے کہ دست
نت سوئے آسمان رکھتی ہے شمع
کیونکہ پروانہ رشک سے نہ جلے
سب کے آگے فلان رکھتی ہے شمع
کھول مکھڑا کہ ہے یہ مجھ کو یقیں
تجھ سے دعویٰ گمان رکھتی ہے شمع
یہ دل افسردہ وائے قسمت بد
سوز تا استخوان رکھتی ہے شمع
راتوں جاگی ہے مثل قائمؔ کی
تب یہ سوز نہان رکھتی ہے شمع
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |