گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا
گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا
ہاں مگر دشت عدم ہی کو نکل جاؤں گا
طائر نامہ بر اپنا یہی کہتا ہے کہ آہ
رقم شوق کی گرمی سے میں جل جاؤں گا
جلد اے کاش جتاوے اسے جوبن اس کا
پھر ہو کس کام کے تم جب کہ میں ڈھل جاؤں گا
آج گو اس نے بہ رسوائی نکالا مجھ کو
گر یہی دل ہے تو پھر آپ سے کل جاؤں گا
مشورہ کر کے یہ دل کوچۂ جاناں کو چلا
عزم تو لانے کا کیجو میں مچل جاؤں گا
گر یہی آتش الفت ہے تو مانند سپند
آہ میں مجمر ہستی سے اچھل جاؤں گا
تو گرفتار محبت ہوں مری وضع سے تم
اتنا گھبراؤ نہ پیارے میں سنبھل جاؤں گا
وائے قسمت کہے جب صبر سا مونس یہ بات
تجھ پہ دیکھوں گا برا وقت تو ٹل جاؤں گا
جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم
آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا
جی کہیں تو نہ پھنسا ورنہ ترے دام سے میں
آب غربال کی مانند نکل جاؤں گا
جوں حنا اپنے وہ قدموں سے نہ لگنے دیں گے
اس تمنا میں اگر خاک میں رل جاؤں گا
جاتے جاتے کف افسوس اسی حسرت میں
اشک بھر لا کے دم نزع بھی مل جاؤں گا
جن کے نزدیک ہے انداز غزل میرؔ پہ ختم
ان کو جرأتؔ میں سنانے یہ غزل جاؤں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |