Jump to content

گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا

From Wikisource
گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا
by شیخ قلندر بخش جرات
296733گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گاشیخ قلندر بخش جرات

گو ہوں وحشی پہ ترے در سے نہ ٹل جاؤں گا
ہاں مگر دشت عدم ہی کو نکل جاؤں گا

طائر نامہ بر اپنا یہی کہتا ہے کہ آہ
رقم شوق کی گرمی سے میں جل جاؤں گا

جلد اے کاش جتاوے اسے جوبن اس کا
پھر ہو کس کام کے تم جب کہ میں ڈھل جاؤں گا

آج گو اس نے بہ رسوائی نکالا مجھ کو
گر یہی دل ہے تو پھر آپ سے کل جاؤں گا

مشورہ کر کے یہ دل کوچۂ جاناں کو چلا
عزم تو لانے کا کیجو میں مچل جاؤں گا

گر یہی آتش الفت ہے تو مانند سپند
آہ میں مجمر ہستی سے اچھل جاؤں گا

تو گرفتار محبت ہوں مری وضع سے تم
اتنا گھبراؤ نہ پیارے میں سنبھل جاؤں گا

وائے قسمت کہے جب صبر سا مونس یہ بات
تجھ پہ دیکھوں گا برا وقت تو ٹل جاؤں گا

جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم
آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا

جی کہیں تو نہ پھنسا ورنہ ترے دام سے میں
آب غربال کی مانند نکل جاؤں گا

جوں حنا اپنے وہ قدموں سے نہ لگنے دیں گے
اس تمنا میں اگر خاک میں رل جاؤں گا

جاتے جاتے کف افسوس اسی حسرت میں
اشک بھر لا کے دم نزع بھی مل جاؤں گا

جن کے نزدیک ہے انداز غزل میرؔ پہ ختم
ان کو جرأتؔ میں سنانے یہ غزل جاؤں گا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.