گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں
Appearance
گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں
جب کہ طاقت تھی کبھی آپ کے بیماروں میں
لے کے ہم دل گئے کہتے یہ جفا کاروں میں
کون لیتا ہے اسے اتنے خریداروں میں
دی رہائی مجھے صیاد نے اے وائے نصیب
دخل جب فصل خزاں کا ہوا گلزاروں میں
میرے مرنے کا ہوا رنج ہر اک قیدی کو
کہ ہے کہرام بپا تیرے گرفتاروں میں
دست نازک سے مجھے جام دیا ساقی نے
آبرو بڑھ گئی اور آج سے مے خواروں میں
آتش ہجر سے کیا ڈر جو تری مرضی سے
رات کر دیں گے بسر لوٹ کے انگاروں میں
پھینک دینا نہ کہیں بھول کے ہنگام سحر
دل بھی لپٹا ہے انہیں سوکھے ہوئے ہاروں میں
نالۂ بلبل شیدا نہ جسے پھاند سکے
یہ بلندی تو نہیں باغ کی دیواروں میں
نکلا وہ تیر نگہ بھی تو یہ کہہ کر نکلا
میرا دامن نہ الجھ جائے کہیں خاروں میں
یوں سنائی گئی ہے اس کو خبر عالمؔ کی
مر گیا کوئی ترے تازہ گرفتاروں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |