گیا اب آفتاب حشر کا بھی جلوہ گر ہونا
Appearance
گیا اب آفتاب حشر کا بھی جلوہ گر ہونا
شب فرقت ہماری ہے یہ کیا جانے سحر ہونا
وہاں جا کر مرے نالوں کا یا رب بے اثر ہونا
قیامت تھا کسی کا رات کو دشمن کے گھر ہونا
بہت اچھے ہیں جن پر ظلم ہوتے ہیں زمانے کے
اسی کو اہل دل کہتے ہیں منظور نظر ہونا
خیال اک نازنیں کا دل میں پھر رہ رہ کے آتا ہے
ذرا سینے میں اب تھم تھم کے او درد جگر ہونا
ہزاروں نیشتر پیوست ہوں جس کی رگ جاں میں
اسے دشوار ہے مرہون سعیٔ چارہ گر ہونا
یہ کیا کم ہے ملی قید قفس سے مجھ کو آزادی
میرے کام آ گیا آخر مرا بے بال و پر ہونا
بہت ہی عبرت انگیز اور حسرت خیز منظر ہے
لحد پر ایک بے کس کے کسی کا نوحہ گر ہونا
ارادے خشک زاہد حوض مے ہو جائیں گے خالی
کوئی آساں ہے اے صفدرؔ تیرے دامن کا تر ہونا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |