ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں
Appearance
ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں
سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں
جویں رہیں گی جاری گلشن میں ایک مدت
سائے میں ہر شجر کے ہم زور رو چلے ہیں
لبریز اشک آنکھیں ہر بات میں رہا کیں
رو رو کے کام اپنے سب ہم ڈبو چلے ہیں
پچھتائیے نہ کیونکر جی اس طرح سے دے کر
یہ گوہر گرامی ہم مفت کھو چلے ہیں
قطع طریق مشکل ہے عشق کا نہایت
وے میرؔ جانتے ہیں اس راہ جو چلے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |