ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
Appearance
ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
خواب ہی بن گیا خیال کا کیا
خود نمائی پہ خاک ڈالو تم
دیکھنا شکل بے مثال کا کیا
تیری فرقت کے دن خدا کاٹے
ہو رہے گا کبھی وصال کا کیا
دل کے دینے میں عذر کس کو ہے
جان ہی دے رہے ہیں مال کا کیا
حال اس نے ہمارا پوچھا ہے
پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا
وصل کی التجا پہ بگڑے کیوں
سن کے چپ ہو رہو سوال کا کیا
دور کی عاشقی گناہ نہیں
دیکھ لیتے ہیں دیکھ بھال کا کیا
زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا
آج تم کیوں ملول بیٹھے ہو
وصل دن ہے مرے وصال کا کیا
جب کہا تم سے روز ملتا ہوں
ہنس کے کہنے لگے خیال کا کیا
قول کے وقت شرط فرصت کیوں
دخل وعدے میں احتمال کا کیا
رنج دے کر جو خوش ہو اے مضطرؔ
اس کو صدمہ مرے ملال کا کیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |