Jump to content

ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا

From Wikisource
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
by جگر مراد آبادی
300022ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھاجگر مراد آبادی

ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا

جستجو میں تری یہ حاصل سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوش طلب وا دیکھا

آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا

ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا

دل آگاہ میں کیا کہیے جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا

کوئی شائستہ و شایان غم دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.