ہر شجر کے تئیں ہوتا ہے ثمر سے پیوند
Appearance
ہر شجر کے تئیں ہوتا ہے ثمر سے پیوند
آہ کو کیوں نہیں ہوتا ہے اثر سے پیوند
دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل
سنگ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند
مژۂ خون دل آلودہ پہ یہ ہے قطرۂ اشک
یوں ہے جیوں شاخ ہو مرجاں کی گہر سے پیوند
مل رہا ہے ترے عارض سے خط مورچہ یہ
جیسے آئینے کے جوہر ہو جگر سے پیوند
سوزش اشک سے معلوم یہ ہوتا ہے مجھے
قطرۂ آب بھی ہوتا ہے شرر سے پیوند
تھان زربفت کے ہوتے تھے جہاں قطع حضورؔ
جن کی پوشاک سدا ہوتی تھی زر سے پیوند
اب پھٹا جامہ گزی کا نہیں گر ہے بھی کوئی
تو نکالے کو نکلتا نہیں گھر سے پیوند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |