ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
Appearance
ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
تیرے دم کا یہ سارا سماں ہے
اتنا مغرور کیوں باغباں ہے
یہ چمن چار دن میں خزاں ہے
عشق میں بے خبر ہو گیا ہوں
کس سے پوچھوں مرا دل کہاں ہے
کچھ نہیں سوجھتی سیر گلشن
میری آنکھوں سے وہ گل نہاں ہے
دھیان آٹھوں پہر ہے اسی کا
میں یہاں ہوں مرا دل وہاں ہے
سینے پر رکھ کے سوتا ہوں اس کو
اس کی تصویر آرام جاں ہے
آنسو بہنے لگے دیکھتے ہی
زلف محبوب ہے یا دھواں ہے
جان پروانہ ہے اس پری پر
شمع سوزاں ہر اک استخواں ہے
بے مروت ہے وہ بے وفا ہے
ساری محنت مری رائیگاں ہے
کیا تڑپتے گزرتے ہی اپنے
درد دل میں ہے لب پر فغاں ہے
ہجر میں کیوں نہیں موت آتی
ہائے کیا داغ دل مرض جاں ہے
ڈھونڈھتا ہوں میں یوسف کو اپنے
خاک میرے پس کارواں ہے
جام مل ہاتھ میں وہ بغل میں
بحرؔ اپنی یہ قسمت کہاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |